INTRODUCTION


پاکستان چلڈرنزرائٹر ز گائیڈ

ایک تعارف 
غلام محی الدین ترک
٭٭٭
چہرے پر معصومیت ، آنکھوں میں شرارت ، کبھی غباروں کے پیچھے لپکنا تو کبھی تتلیوں کے پیچھے بھاگنا ، کبھی رنگ برنگی کھٹی میٹھی چاکلیٹ کھانے کی چاہ انھیں دیوانہ بنائے رکھتی ہے تو کبھی کھلونوں سے کھیلنے کی خواہش انہیں بے چین کیے رکھتی ہے ۔ بھولے سے ان کی لڑائی ہوجائے تو کچھ ہی دیر بعد پھر ایسے گھل مل جاتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔اور جب کہانی سننے کا شوق ہو تو سارے کام کاج چھوڑ کر نانی اور دادی کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔ یہ کہانیاں انہیں ایک ایسی انجانی دنیا میں لے جاتی ہےں جو انھوں نے کبھی دیکھی تو نہیں مگر اسے دیکھنے کی خواہش انہیں ضرور بے چین کیے رکھتی ہے۔یہ تمام خصوصیات دن بھر ہمارے سامنے شرارتیں کر کے ہمارا دل لبھانے والے بچوں کی ہیں۔جنھیں دیکھ کر ہمارے چہروں پر بے ساختہ مسکراہٹ پھیل جاتی ہے ۔اگر ایک فکر مند انسان کچھ دیر ان ننھے منوں کے درمیان گزار لے تو نہ صرف وہ پر سکون ہوجا تا ہے بلکہ اپنی پریشانی کا حل بھی اطمینان سے تلاش کر لیتا ہے۔ان ننھے منے ستاروں یعنی مستقبل کے معماروں کی تربیت ہی ہم قلم کاروں پر فرض ہے،بلاشبہ بچوں کے ادیب اس دور میںبھی بچوں کی تربیت کر رہے ہیں جب ماں باپ کے پاس بھی ان کے لیے وقت نہیں رہا۔بچوں کے ادیب ایسے سماجی رضاکار ہیں جو کسی معاوضے یا ستائش کی پروا کیے بغیر اپنے حصے کاکام بخوبی انجام دے رہے ہیں۔


آپ یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ جب تک ہمارے گھروں میں نانی اور دادی کی حکمرانی تھی ، بچوں میں کہانیاں سننے کا شوق بیدار رہا،رفتہ رفتہ ان کا کردار محدود ہوتا گیا۔کچھ خاندانی نظام کی تباہی نے بھی اپنا اثر ڈالا۔بچے نانی ،نانا، دادا اور دادی سے دور ہوئے اور انھوں نے اپنی مصروفیت کمپیوٹر گیمز میں ڈھونڈ لی ۔تو کہانیاں پڑھنے اور سننے کے شوق میں بھی کمی آنے لگی ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نانی اور دادی کا یہ کردار بچوں کے رسائل اور کتابوں نے سنبھال لیااور یوں تربیت کی ذمہ داری بچوں کے قلم کاروں پر آپڑی ،جو اب تک اپنا کردار بڑی خوبی سے انجام دے رہے ہیں۔اس طرح بچوں کا ادب بھی فروغ پانے لگا۔


یہاں پر یہ جاننا ضروری ہے کہ ادب کا مقصد دراصل کیاہے ؟
ادب کی چاہے کوئی بھی صورت ہو اس کا کام معاشرے اور افراد کی تربیت کرنا ہے ،انھیں ان نئے رجحانات سے روشناس کرانا ہے جس کی روشنی میں وہ اپنا آئندہ لائحہ عمل طے کر سکیں اور اس کے مطابق اپنی زندگی کا ایک واضح نصب العین بنا سکیں۔

اور بات جب مستقبل کے معماروں کی ہو،تو ہر فرد کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے۔ بچوں کے قلم کار اسی احساس کے تحت ہی اپنا قلم رواں رکھے ہوئے ہیں۔
یہاں پر یہ جان لینا بھی ازحد ضروری ہے کہ آخر بچوں کا ادب ہے کیا۔
ڈاکٹر محمود الرحمن ”اردو میں بچوں کا ادب“ میں ایک انگریز مصنف Henry Steel Comage کے حوالے سے لکھتے ہیں۔
جو بھی چیز بچوں کے کام و دہن میں لذت دے اور ان کے مزاج و مذاق کے ہم آہنگ ہو،وہ ان کا ادب قرار 
پاتی ہے۔چاہے یہ چیز بڑوں اور بزرگوں کی میراث ہی کیوں نہ ہو“۔

بچوں کے ادب پر مزید نظر ڈالنے سے پہلے ضروری ہوگا کہ ہم پاکستان کی موجودہ صورت حال پر ایک سرسری نظر ڈالیں اور دستیاب اعداد و شمار کا ایک نظر جائزہ لیں تاکہ ہمیں اندازہ ہوسکے کہ ادب خصوصا ً بچوں کے ادب کے فروغ میں کیا کیا رکاوٹیں ہیں۔
پاکستان کی آبادی سولہ کروڑ اسی لاکھ یعنی تقریباً سترہ کروڑ ہے جس میں سے ۴۵ فی صد افراد ۸۱ سال سے کم 
عمر ہیں۔

بچہ: اٹھارہ سال سے کم عمر افراد کو بچہ تسلیم کیا جاتا ہے۔
ادب پڑھنے اور سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ فرد خواندہ ہو مگر بدقسمتی سے حکمرانوں اور امراءکے تعلیم دشمن رویے کے باعث وطن عزیز کی اکثریت تعلیم سے ناآشنا رہی ۔پوری آبادی کے صرف تیس فی صد حصے کو خواندہ تسلیم کیا جاتا ہے ، ان تیس فی صد پڑھے لکھوں میں وہ افرا د بھی شامل ہیں جو صرف دستخط کرنا جانتے ہیں۔ان تیس فی صد میں سے ایک فی صد ادب خواندہ جو بڑوں اور بچوں کے ادب کو پڑھ رہے ہیں اور نصف سے زائد تعداد کو لکھنے کا شوق ہے ، مدیران سے اعزازی کاپیاں مانگنے کی تکرار(اس عادت نے مفت میں کتابیں یا رسالے پڑھنے کے غلط رجحان کو جنم دیا ہے،قلم کار یا تشہیری ادارے کے سوا یہ حق کسی دوسرے کو ہر گز نہیں ملنا چاہیے ۔کم از کم گائیڈ تو یہی سمجھتی ہے ورنہ پھر مدیر کے اخراجات کیسے پورے ہوں گے؟)۔ یہ وہ صورت حال ہے جو ہم وطن عزیز میں دیکھ رہے ہیں تو کیا آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ان حالات میں بچوں کے ادب کو کسی طور بھی پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔یہ ہماری زندگی کا ایک ایساکڑوا سچ ہے جس پر توجہ دیئے بغیر ہم اپنے اصل مقصد کی طرف نہیں آسکتے اور نہ ہی ہم اپنے مقاصد کی تکمیل کر سکتے ہیں۔

بچوں کے ادب اور ادیبوں کے ساتھ مسئلہ کہاں سے شروع ہوا؟
جس معاشرے میں جو فرد مستقبل کے معماروں کی تربیت کرتا ہے ،اسے سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے ۔اگر یہ صورت حال وطن عزیز میں بھی ہوتی تو کیا بات تھی ۔پاکستان میں بچوں کے لیے رسالے قیام پاکستان کے بعد ہی سے نکلنا شروع ہو گئے تھے ،اخبارات بھی ان کے لیے خصوصی صفحات شائع کرتے تھے ،(ایک زمانے میں اخبارات میں بھی بچوں کے لیے معیاری صفحات شائع ہوتے تھے مگر پھر وہ سنہرا دور ختم ہوا اور اب اخبارات میں بچوں کے لیے ایسی غیر معیاری تحریریں شائع ہوتی ہیں کہ بے اختیار سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے۔آپ خود ہی سوچیے ،جب مالکان بچوں کے صفحات پر اشتہار لگا دیں تو کیا انھیں بچوں کی تربیت سے کوئی دل چسپی ہوگی )بچوں کے ادیب ان صفحات و رسائل کے ذریعے نہ صرف اپنے شوق کی تسکین کیا کرتے تھے بلکہ بچوں کی تربیت درست خطور پر استوار کرنے میں ان کے والدین کے معاون بھی تھے۔یہ کام اسی طرح چلتا رہا۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان کے کام کو سراہا جاتا ،ان کی پذیرائی کی جاتی مگر معاملہ اس کے بر عکس ہوا۔

ہمارے بڑوں نے اس ادب کو تسلیم ہی نہ کیا۔جی ہاں۔ بچوں کے ادیبوں کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بچوں کے ادب او ر ادیبوں کو تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔بڑوں کے ادیبوں کے لیے تو پھر بھی صورت حال بہتر ہے کہ انھیں اعزازات بھی مل جاتے ہیں اور اعزازیہ بھی .... مگر آج تک ملکی سطح کا کوئی اعزاز بچوں کے ادیبوں کو نہیں دیا گیا۔حالانکہ ہمارے بچوں کے ادیبوں نے ہزاروں ایسی کہانیاں، نظمیں اور مضامین لکھے جن کی الگ ادبی شناخت ہے۔جن کو ادبی معیار پرپرکھا جا سکتا ہے۔مگر انھیں نظر انداز کرنے کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔بچوں کا ادب نظر انداز کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ بڑوں کا ادب بھی خود بخود زوال پزیر ہوگیا۔ پاکستان میںبڑوں کا کوئی ادبی رسالہ باقاعدگی سے نہیں نکل رہا۔ تاہم یہ اطمینان ضرور ہے کہ وطن عزیز میں بچوں کے لیے پچاس سے زائد رسالے نکل رہے ہیں ،جن میں سے نصف باقاعدہ ہیں۔

گائیڈ کی ضرورت کیوں پیش آئی۔
بچوں کے ادب کو نظر انداز کرنے کا سلسلہ اسی طرح جاری ہے ،اس بات کو شدت سے محسوس کیا گیا کہ کہ بچوں کے ادب میں ایک تحریک کی ضرورت ہمیشہ سے رہی ہے۔جو بچوں کے ادب کو پروان چڑھا سکے۔بچوں کے قلم کاروں کو ان کا مناسب حق دلا سکے۔ وہ قلم کار جو اپنی مصروفیات اور فکر معاش کی وجہ سے بچوں کے میدان سے دور ہوگئے ہیں،انھیں واپس اس میدان میں لایا جائے تاکہ وہ پھر سے الفاظ سے کھیل سکیں،اپنی خوبصورت تخلیقات پیش کر سکیں۔
ذہن میں یہ احساس جاگا کہ ہر شخص کو کسی نہ کسی مرحلے پر گائیڈ (رہنمائی) کی ضرورت ہوتی ہے ۔بچوں کے ادب اور ادیبوں کے لیے تو یہ ناگزیر ہے ۔اسی احساس نے گائیڈ کے قیام پر چند حساس دلوں کو آمادہ کیا۔آپ خود ہی سوچیے ،فروغ ادب کے دعویدار ہمارے اکابرین جب بچوں کے ادب کو سراسر نظر انداز کیے ہوں، بچوں کا ادب کسی صورت تسلیم نہ کر تے ہوں اور روشنی کی کوئی کرن نمودار ہونے کے امکانات نہیں تو حالات مزید گھمبیر ہوجاتے ہیں۔ان حالات میں ہم نے کم از کم یہ فیصلہ کیا کہ

اپنے حصے کی شمع کو ہم خود جلائیں۔
ہم اپنی شمع جلانے کا فیصلہ کر چکے ہیں اور اب فیصلہ آپ کے ہاتھوں میں ہے ،آپ ۔ یہ مت سوچیے کہ آپ اکیلے ہیں،اگر آپ نے ہمارا ساتھ دینے کا فیصلہ کر لیا تو آپ بہت کچھ کر سکتے ہیں۔جی ہاں اب فیصلہ آپ کے ہاتھوں میں ہے ،آپ کو یہ سوچنا ہے کہ اس تحریک کا کس طرح ساتھ دیں گے ۔ ہر گز یہ نہ سوچیں کہ ایک ایسے وقت جب وطن عزیز پر کڑا وقت آن پڑا ہے ۔ ہم ایک ایسے ملک میں جی رہے ہیں ، جہاں خود کش دھماکے عام ہیں، مہنگائی کا جن سب کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے ،عوام کا کوئی پرسان حال نہیں،تعلیم کی ترقی سے کسی کو کوئی سروکار نہیں،جہاں اکثریت کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں، اور بجلی کسی روٹھی ہوئی دلہن کی طرح اپنے میکے جابیٹھی ہے۔اور جہاں ادب زندہ نہیں وہاں قلم کاروں کی زندگی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ توخود اپنی موت آپ مر چکے ہیں۔ تو ان حالات میں آپ کو بچوں کے اد ب کے فروغ کی کیا سوجھی۔
آپ کہہ دیجیے کہ اگر بچوں کے ادب کو فروغ دیا جاتا، تخلیقات کا راستہ نہ روکا جاتا تو شاید آج ایسے حالات نہ ہوتے مگر خیر پھر بھی ہم پاکستان سے مایوس نہیں۔ہاں ہم پاکستان کے حالات سے مایوس نہیں۔پاکستان کو ان حالات سے نکالنے کے لیے ہم سب اپنا کردار ادا کریں گے ،کیونکہ ہمارے پاس قلم کی طاقت ہے جو تمام طاقتوں سے بڑھ کر ہے ۔ہم ان حالات میں بھی بچوں کے ادب کے فروغ کے لیے اپنا کام کرتے رہیں گے۔کہہ دیجیے کہ

ہمیں بچوں کے ادب سے پیار ہے
ہاں،رات کی تاریکی کے بعد صبح کی روشنی ضرور طلوع ہوتی ہے ۔ہم اس مایوس کن صورت حال سے نکلنے کے لیے اپنے حصے کی شمع خود جلائیں گے ۔

گائیڈ کی ضرورت کیوں ہے؟۔
بچوں کے ادب کو نظر انداز کیا جاتا رہا ،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ مدیران جو اپنے محدود وسائل میں رسالے شائع کرتے رہے ۔اور جنھوں نے نونہالوں کی تربیت میں اپنا اپنا حصہ ڈالا۔ کچھ عرصے بعد ہی محدود وسائل ہونے کی بناءپروہ رسالے جاری نہ رکھ پائے،رسالے دو،دو تین ماہ کے وقفوں سے آنے لگے اور پھر آہستہ آہستہ منظر عام پر سے ہی غائب ہوگئے ۔ ان رسائل میں ہماری دنیا، کھیل کھیل میں ، چلڈرن ٹائمز، بچوں کی دنیا، چائلڈ اسٹار ، ہونہار، خزانہ ، بھائی جان (شفیع عقیل )میرا رسالہ ،کھلونا، غنچہ ، پھلواری ، بچوں کا ڈائجسٹ ، لڑکپن ،سائنس ، چندا ماموں، نونہال دنیا، دیانت ، کایا پلٹ ، رنگ برنگ ، آنکھ مچولی ، چاند ستارے ، بچوں کا گلشن ، اسکول ڈائجسٹ ، چاند گاڑی ، چلڈرن نیوز، بہار چمن ،نوعمر، نئے چراغ، انکل سرگم ، تاروں کی دنیا، بچپن ، لوٹ پوٹ، الف اجالا، فاختہ ، غنچے اور کلیاں، بچوں کا مون ، بزم گل ، بچوں کا دوست ، اکیڈمی ، دوست ، چاند نگر، خوش بخت ڈائجسٹ ،ٹپ ٹاپ ، چھوٹی دنیا، روشنی(ثاقبہ رحیم الدین) ، چھوٹو، دھنک ، معصوم ، جگنو، نور ، شاہ رخ ، چنبیلی ، معمار،ون ٹو، معمار جہاں، ہلال اور ایسے ہی کئی دیگر رسالے شامل ہیں جو آج ہمیں نظر نہیں آتے۔
اگر ان کی سرپرستی کی جاتی تو آج صورت حال مختلف ہوتی ۔ پھر قلم کاروں کی تو ایک طویل فہرست ہے جن کے کام کو نہ صرف سامنے لانے کی ضرورت ہے بلکہ انھیں سراہنے کی بھی ۔جو فکر معاش اور دیگر وجوہ کی بناءپر بچوں کے ادب کو خیر باد کہہ چکے ۔کئی ایسے قلم کار ہیں جن کی کتابوں کی دوبارہ اشاعت ممکن ہو سکتی ہے تاکہ نئے قارئین کو اندازہ ہو سکے کہ ہمارے لیے اسلاف کیسا خزانہ چھوڑ چکے ہیں۔
ہم نے اپنے حصے کی شمع جلانے کا فیصلہ کر لیا ہے مگر


آپ کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
کیونکہ اگر ہم بچوں کے ادب کو مٹانے سے بچانے کے لیے اپناحصہ نہ ڈالیں تو پھر اگلی نسل تک یہ خوبصورت کہانیاں،رنگ برنگی نظمیں اور معلوماتی مضامین کیسے پہنچیں گے۔ہمیں مل کر یہ ادبی خزانہ ہر بچے تک پہنچانا ہے۔

ہم کیا کر سکتے ہیں؟
یہ وہ سوال ہے جو اکثر قلم کاروں کے ذہنوں میں گونج رہا ہے، شاید انھیں یقین نہیں کہ ادب کے لیے کچھ صورت حال بہتر ہو سکتی ہے ۔ پاکستان میں ادب کی جو صورت حال ہے ۔بیشتر ادبی تحریکیں بری طرح ناکامی سے دوچار ہو چکی ہیں۔ملک میں کوئی ادبی پرچہ باقاعدگی سے نہیں نکل رہا مگر اس کے باوجود کسی نہ کسی طرح سے بچوں کے لیے پچاس سے زائد ما ہنامے نکل رہے ہیں جن میں سے تقریباً نصف باقاعدہ ہیں ۔یہ صورت حال بطاہر خوش آئند ہے ۔مگر ابھی اس میں مزید بہتری کی گنجائش ہے۔اگر آپ کی نیت میں خلوص ہے تو آپ بہت کچھ کر سکتے ہیں۔حضور ﷺ، حکیم محمد سعید،عبدالستار ایدھی بھی پہلے ایک تھے، پھر ان کے 
کام نے کارواں کی شکل اختیار کر لی۔

کیا ہم تبدیلی پیداکر سکتے ہیں؟
جی ہاں۔ اگر ہم مستقل مزاجی سے منزل(ہدف۔مقصد) کو سامنے رکھتے ہوئے اس پر چلنا شروع کر دیں تو بالآخر ایک روز ہم منزل تک پہنچ جائیں گے کیونکہ عزم صادق ہو تو بڑی سے بڑی چٹانوں کو پاش پاش کیا جا سکتا ہے۔

آپ یہ جان لیں کہ آپ فرد واحد نہیں بلکہ ایک طاقت ہیں۔
اورطاقت کی کئی قسمیں ہیں۔جن میں سے سب سے اہم متحد رہنا ہے۔اگر ہم سب ایک منزل کے مسافر بن جائیں تو پھر یقینا ہم کچھ کر سکتے ہیں۔
اب سوچیے نہیں،قدم بڑھائیے اور ہمارے ساتھ شریک سفر ہوجائیے۔
پاکستان میں بچوں کے ادب کو مٹنے سے بچانے کے لیے ہمیں آپ کا ساتھ چاہیے۔ اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ ہمارا اپنا کوئی مفاد نہیں ، صرف ادب اور ادیب کی بہتری کے لیے کچھ کرنے کا سوچا ہے۔ہماری تعداد ابھی محدود ہے،آپ کے شامل ہونے سے ایک فرد کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ ہمیں آپ کا تعاون چاہیے۔آپ کے تعاون سے ہم اپنے مقصد کو بآسانی پاسکتے ہیں۔
ممبر شپ فارم بھر کر آپ بھی گائیڈ کے ساتھی بن سکتے ہیں۔ ہم آپ کو گائیڈ میں شمولیت کی دعوت دیتے ہیں۔ادب کی ترقی بظاہر مشکل نظر آرہی ہے، منزل آنکھوں سے اوجھل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے مگر ارادوں میں ثابت قدمی ہو اور نیت میں خلوص ہو تو پھر گائیڈ کے تحت یہ سفر آسانی سے طے ہو سکتا ہے ۔اس ضمن میں آپ کی تجاویز اور مشوروں کا خیر مقدم کیا جائے گا۔

٭٭٭

LinkWithin

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...